کرپشن کے خاتمے کا عزم !
اس ملک میںایک بنیادی خرابی کرپشن اور بدعنوانی ہے، لیکن اس ملک کا حکمران طبقہ کرپشن اور بدعنوانی کو اوّل تو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیںاور دوسرا خاتمے کے لیے ایسے مصنوعی اقدامات کرتا ہے کہ جس سے کرپشن کا خاتمہ کبھی ممکن ہی نہیںہو سکے گا،اس کی دلیل میں کہا جاتاہے کہ آج کے سرمایہ دار نظام میں کرپشن لازمی حصہ بن چکی ہے ، اس کو تسلیم کر تے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے ،جبکہ کرپشن ،بدعوانی کے ساتھ ا ٓگے بڑھنا ممکن ہی نہیں ہے ،اس کے باعث ہی آج تک ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے حکومتی سطح پر جتنے بھی اقدامات اٹھائے جاتے رہے ہیں،
وہ موثر ثابت ہو سکے نہ ہی آئندہ مو ٔ ثر ثابت ہوتے دکھائی دیے رہے ہیں ۔ہردور اقتدار میں احتساب کی باتیں بہت کی جاتی رہی ہیں ، آج کل بھی بڑے زور شور سے کہاجارہا ہے کہ گزشتہ حکمرانوں کے ساتھ انہیں لانے والوں کا بھی احتساب کیا جائے ،جبکہ خودآئینی ترامیم کے ذریعے احتساب سے بچا جارہا ہے تو بلا امتیاز احتساب کیسے ہو گا اور کیسے کر پشن ، بدعنوانی کا خاتمہ کیسے کیا جاسکے گا ، یہاں تو ہردور میں احتسابی اداروں کواپنے مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا رہا ہے
اور انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایاجاتا رہا ہے، اس لیے ہی احتسابی ادارہ اپنی افادیت کھو چکا ہے اور پاکستان کی سیاسی قیادت مشترکہ طور پر مطالبہ کر تی چلی آرہی ہے کہ نیب جیسے اداروں کو ہر صورت میں بند ہونا چاہیے،اگر نیب بھی بند ہو جائے گا تو احتساب کون کرے گا اور کیسے کرپٹ اور بدعنوان لوگوں پر ہاتھ ڈالا جاسکے گا۔
پاکستان کا حکمران طبقہ بار بار اس بات کو دہراتا رہا ہے کہ اس کی پوری توجہ ایک شفاف نظام کی تشکیل پر رہی ہے، لیکن ہر حکومت کے دعوے کوئی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ،حال ہی میں آئی ایم ایف کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی حکمرانی کے نظام میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور بدعنوانی ہے ،اگر پاکستان نے کرپشن کے خاتمے میں بنیادی نوعیت کے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو معاشی ترقی کا عمل کسی بھی صورت میں آگے نہیں بڑھ سکے گا، اس سے قبل آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستانی بیوروکریسی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نظام بہت بوسیدہ اور فرسودہ ہو چکا ہے اور اس کی موجودگی میں پاکستانی معیشت کی ترقی کا خواب، محض خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔
پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے کہ یہاں ہر حکومت اصلاحات کی باتیں کرتی ہے، مگر اصلاحات کرتے وقت اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے طاقتور افراد کو ہی مزید مضبوط بناتی ہے، اس لیے ہی اصلاحات کا عمل کامیابی سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے ، اگر کہیںپر داخلی اور خارجی مجبوریوں کی وجہ سے بہتر اصلاحات کی گئی ہیں تو اس پر عمل درامد نہیں کیا جارہا ہے، اس کے باعث ہی پورا حکومتی نظام کرپشن اور بدعنوانی کی بنیاد پر کھڑا ہے اور ہم نے اسے ایک بڑی مصلحت اور ضرورت کے تحت قبول کر لیا ہے،اگر ملک میں نظام ہی شفاف نہیں ہو گا تو پھر جمہوریت کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ جمہوریت کے علمبر دار ہی جمہوریت کا مستقبل تباہ کر نے پر تلے ہوئے ہیں، انہوں نے دیکھانے کیلئے ادارے تو بہت بنا ئے اور کرپشن ، بدعنونی کو اپنی ریڈ لائین قرار دیتے رہے ،لیکن اداروں کو خود مختار کرنا اور ان میں شفافیت لانا ،ان کی ترجیحات کا کبھی حصہ نہیں رہاہے،اس کے باعث ہی جب عالمی ادارے مختلف شعبوں میں پاکستان کی درجہ بندی کرتے ہیں تو ہم بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں،اس ملک میں کرپشن اور بدعنوانی کے الزام میں کئی بڑے سیاست دانوں پر مقدمات بنائے گئے یا ان کو جیلوں میں ڈالا گیا ،لیکن اس کا مقصد احتساب کرنا کبھی نہیں رہا ہے،
بلکہ اس کی بنیاد پر ان سے سیاسی ڈیل کرنا یا اپنے آپ کو تحفظ دینا ہی رہا ہے اور یہ مسئلہ محض سیاستدانوں تک محدود نہیں رہاہے، بلکہ اوپر سے لے کر نیچے تک سارا نظام ہی کرپشن کی نظر ہو گیا ہے ، ہر کوئی کرپشن کو نہ صرف اپنا حق سمجھنے لگاہے ، بلکہ جو جتنا بڑا کرپٹ ہے، اسے اتنا ہی زیادہ تحفظ دیا جارہا ہے، ایک زمانہ تھا کہ جب لوگ کرپٹ لوگوں سے خود کو دوررکھتے تھے، لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے اور کرپشن اور بدعنوانی کو عملی طور پر پلی بارگینگ کے ذریعے تحفظ دیا جارہا ہے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے افراد اوربالخصوص رائے عامہ بنانے والے افراد یا ادارے، بالخصوص نوجوان طبقہ اس بحث کو اور زیادہ شدت سے بیدار کرے کہ ملک میں احتساب ہو نا چاہئے،لیکن یہ احتساب منصفانہ، شفاف اور بے لاگ یا بلاتفریق ہونا چاہئے،اس پر دلیل دی جاتی ہے کہ احتساب صرف سیاسی مخالفین کا ہی کیوں،حکومت میں شامل لوگ کیوں دائرہ کار میں نہیں آتے ہیں،اس کے لیے بھی رائے عامہ کے اداروں اورافراد کو ریاست اورحکومتی اداروں پر دباؤبڑھانے کی پالیسی میں شدت پیدا کرنا ہوگی
کہ و ہ لوگ جو حکومت کی چھتری کے نیچے سیاسی پناہ لیے ہوئے ہیں اورا ٓئینی ترامیم کے ذریعے استثنیٰ لے رہے ہیں، ان کو بھی احتساب کے دائرہ کار میںلاکر کرپشن ، بدعنوانی کی سیاست کے خاتمے کا نیا عزم کرنا چاہئے کیونکہ منصفانہ معاشرہ اور شفاف جمہوریت پر مبنی سیاسی نظام کبھی کرپشن کی حمایت کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتاہے۔

