پہلے ریاست پھر سیاست !
ملک میں ایک طرف دہشت گردی ہے تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام ہے ،اس کے باعث معیشت زبوں حالی کا شکار ہے ، اتحادی حکو مت سارے بحرانوں سے نکالنے اور سیاست نہیں ، ریاست بچانے دعوئے کے ساتھ آئی تھی ،مگر اڈھائی سال بعد بھی اپنی سیاست ہی بچاتے دکھائی دیے رہی ہے ، اس کے باوجود ایک بار پھر وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ بیرونی محاذ پر پاکستان کی پذیرائی ہماری موثر پالیسیوں اور ملک کے اندر اتحاد و یکجہتی کا مظہر ہے، اس ملک پہلے ریاست پھرسیاست ہوگی،ملکی ترقی،معیشت کی مضبوطی، دہشت گردی کا سدباب اور امن و استحکام ہمارا قومی ایجنڈا ہیں اور اس پر سیاست کی کوئی گنجائش نہیں، دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ فیصلہ کن مرحلہ پر ہے، ہم دہشت گردی کو دفن کرکے ہی دم لیں گے اور ملک میں سیاسی استحکام اور خطے میں قیام امن لائیں گے۔
اگر دیکھا جائے توایک بار پھرکہنے کو وزیراعظم نے اپنا ماٹودھرایاہے کہ پہلے ریاست پھر سیاست ہو گی، مگر کیا یہ سب کچھ آسانی سے ممکن ہو پائے گا اورکیا ہماری اجتماعی قیادت کبھی ایسی سوچ پر عمل کرپائے گی ،اس پر ایک اور سوال اُٹھتا ہے کہ اگر ریاست کو پہلے رکھنا ہے تو پھر ریاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی ، جبکہ اس وقت تو عالم یہ ہے کہ جس کا جہاں داؤ چل رہا ہے چلا یا جا رہا ہے ،اگر ریاست کو آگے رکھنا ہے تو پھر سیاسی محاذ آرائی کو بھی ختم کرنا پڑے گا،جوکہ ہمارے اندر انتشار و افتراق کا سب سے بڑا سبب ہے، لیکن یہ جانتے ہوئے بھی اپنی سوچ کو بدلا جارہا ہے نہ ہی اپنے روئیوں میں تبدیلی لائی جارہی ہے،حالا نکہ اس حکومت کو سہولت حاصل ہے کہ اُسے متعدد سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے اُسے ایک قومی ایجنڈے کے تحت معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اگر ریاست کو سیاست پر مقدم رکھنا ہے تو اس کے مظاہر بھی سامنے آنا چاہئیں اور ایسے اقدامات ہو نے چاہئے، جوکہ ہمیں گھمبیر مسائل سے چھٹکارا دِلا سکیں،لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ہے ۔
حکومت وہی کچھ کررہی ہے ،جو کہ اس سے قبل ہوتا آیا ہے،ماضی میں جو تجربات کیے جاتے رہے ہیں، اُن سے کچھ حاصل نہیں ہوا،الٹا ہم مسائل کے گرداب میں ہی د ھنستے چلے گئے ہیں،اس کے باوجود آزمائے کو ہی آزمایا جارہا ہے ، حالا نکہ ہمارا ملک اتنا بڑا ہے، ہر طرح کے وسائل ہیں،افرادی قوت میسر ہے ،اعلیٰ تعلیم کے ادارے کام کر رہے ہیں،ماہرین کی کمی نہیں، مگر اس کے باوجود ہم آگے کی بجائے پیچھے جا رہے ہیں،خرابی آخر کہاں ہے؟ ہمارے قرضے اور خسارہ بڑھتا ہی جا رہا ہے،ہم ایک شیطانی چکر میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ جس سے نکلنے کی کوئی صورت دکھائی ہی نہیں دے رہی ہے ،ہمارا حال تو اُس شخص جیسا ہو گیاہے، جو کہ صرف اپنا آج گزارنا چاہتا ہے،اُسے اگلے دن کی کوئی فکر ہی نہیں ہوتی ہے ،اس ملک میں کوئی حکومت بھی غیر ملکی قرضہ کم کرنے میں کامیاب ہی نہیں ہوئی ،بلکہ بڑھا ہوا قرض ہی چھوڑ کر گئی ہے اور اس کا ملبہ ایک دوسرے پر ہی ڈالتی رہی ہے۔
ہمارے اہل سیاست نے کبھی اس نکتے پر اتفاق ہی نہیں کیا ہے کہ سیاست ہوتی رہے گی، مگر معاشی پالیسیاں اور معاشی خود انحصاری کے لیے فیصلے تبدیل نہیں ہوں گے،ایک حکومت جاتی ہے تو دوسری اُسی کی جگہ آ کر پھر صفر سے کام کا آغاز کرتی ہے، اس سے پہلے سے لیے ہوئے قرضے بھی بوجھ بن جاتے ہیں اور اُس بوجھ کو اتارنے کے لیے نئے قرضے لینا پڑتے ہیں، بچت کرنا ہمارا قومی شعار ہی نہیں بن سکا، ہماری حکومتوں نے سرکاری وسائل کو بے رحمی سے لٹایا،انفرادی سطح پر بھی ہماری نمود و نمائش کی عادت نے خود انحصاری کی منزل تک نہیں پہنچنے دیاہے ، اس کے باعث ہی سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق ہماری بچت جی ڈی پی کا12فیصد رہی ہے، جبکہ عام ترقی پذیر ممالک میں شرح30سے35فیصد کے درمیان ہوتی ہے، اس سے انہیں سرمایہ کاری کے لئے وسائل میسر آتے ہیں۔
اگر چہ کہنے کو شہباز شریف نے ایک بار پھر کہہ دیا ہے کہ اُن کی ترجیح ریاست ہے سیاست نہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اس کا اُن کے پاس لائحہ عمل کیا ہے،اس نظریے کو وہ کیسے عملی جامہ پہنائیں گے،اس کے لیے کو نساروڈ میپ بنایا گیاہے، اس ھکو مت نے اپنے اڈھائی سال میں کو نسی ایسی پالیسیاں متعارف کرائی ہیں کہ جن سے پاکستان کی مشکلات میں کوئی کمی آئی ہیں ، وہ بھلے کہتے رہیں کہ اتحادی جماعتوں کی ترجیح ریاست ہے،سیاست نہیں، مگر وہ اس سیاست سے کیسے بچیں گے، جوکہ تحر یک انصاف نے جاری رکھی ہوئی ہیںاور اس کا جواب دینے کے لیے تمام حکومتی شخصیات بھی اپنا اچھا خاصا وقت صرف کرتی رہتی ہیں۔
اگر ایسی سورتحال میںمیاںشہباز شریف کہنا چاہتے ہیں کہ وہ مشکل فیصلے کریں گے، چاہے اُن کی سیاست کو نقصان ہی پہنچے تو اس سے ملک میں عام آدمی کو کیا فائدہ پہنچے گا؟اِس وقت تک تو جو مشکل فیصلے سامنے آئے ہیں، وہ آسان فیصلوں کے زمرے میں آتے ہیں کہ تیل کی قیمتیں بڑھا دو، بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دو،مشکل فیصلے تو ایسے ہوتے ہی کہ بے جا اخراجات پر کنٹرول کیا جائے،حکومت کے حجم کو کم رکھا جائے،سرکاری مشینری کو بچت کا پابند بنایا جائے، نجکاری کے عمل کو تیز کیا جائے، خسارے کو کم کرنے کے لیے درآمدات کے حجم میں کمی لائی جائے،برآمدات کو بڑھانے کے لیے غیر روایتی فیصلے کیے جائیں اور قرض پرقرض لینے کے بجائے خود انحصاری کی جانب آیا جائے ، حکومتی طرزِ عمل میں ایک واضح فرق نظر آنا چاہیے، مگرایسا کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے۔
اِس وقت دیکھا جائے تو کچھ بھی نہیں بدلا،بس چہرے بدل گئے ہیں، اس حکومت کے وہی انداز آمرانہ ہیں اور اس انداز آمرانہ سے ہی اقتدار چلایا جارہا ہے ، اس بات کا انہیں ذرہ بھر احساس نہیں کہ خلق ِ خدا کس عذاب سے گزر رہی ہے ،ان کی سیاست کے وہی لچھن ہیں اور ان کے الزامات کے وہی تیر زنی ہے،اس حکو مت میں کہیں کوئی ایسا فیصلہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ، جوکہ ا س بات کو ثابت کرے کہ ریاست سیاست پر غالب آ گئی ہے، جب تک ہماری سیاسی قیادت اپنی سوچ نہیں بدلے گی ، اپنے روئیوں میں تبدیلی نہیں لائے گی اورملک کے بنیادی مسائل پر سر جوڑ کر نہیں بیٹھے گی ،اُس وقت تک ہماری مشکلات کا چکر کبھی ختم ہو گا نہ ہی ترقی و خوشحالی کا سفر شروع ہو پائے گا۔ْْْْْْْْْْْْْْْْ

