Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

8 اکتوبر 2005 ملبے تلے دفن خواب

تحریر:نعیم الحسن نعیم.

8 اکتوبر 2005 ملبے تلے دفن خواب

تحریر: نعیم الحسن نعیم

آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کی صبح معمول کے دنوں جیسی دکھائی دیتی تھی۔ لوگ اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف تھے، بچے اسکول جانے کی تیاری میں، دکانیں کھلنے لگی تھیں، دفاتر کی رونقیں بحال ہو رہی تھیں۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ لمحوں میں سب کچھ مٹی کا ڈھیر بن جائے گا۔ گھڑیاں جب صبح آٹھ بج کر باون منٹ پر رکیں، تو آزاد کشمیر، بالاکوٹ، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور مظفرآباد کی فضا میں صرف ایک آواز تھی آہ و بکا، چیخ و پکار، اور بے بسی کی گونج۔یہ صرف ایک زلزلہ نہ تھا،

یہ قیامتِ صغریٰ تھی۔ زمین کی گہرائیوں سے اٹھنے والی چیخوں نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔ آزاد کشمیر کا طمظفرآباد، باغ، راولا کوٹ اور نیلم ویلی صفِ ماتم بن گئے۔ وہ بچے جو اسکول کی بینچوں پر بیٹھے خواب دیکھ رہے تھے، وہ مائیں جو چائے بنانے میں مصروف تھیں، وہ بوڑھے جو مسجد کی طرف جا رہے تھے سب کچھ ایک پل میں ملبے تلے آ گیا۔اس زلزلے کی شدت سات اعشاریہ چھ تھی،

لیکن اس کا درد، اس کی تباہی، اس کے اثرات، شاید صدیوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ مظفرآباد جیسے شہر مٹی میں دفن ہو گئے، گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے، اور ہزاروں خواب، خواہشیں، امیدیں اور منصوبے ملبے تلے دفن ہو گئے۔
جس نے بھی وہ دن اپنی آنکھوں سے دیکھا، وہ جانتا ہے کہ یہ صرف اینٹوں، پتھروں یا عمارتوں کی تباہی نہیں تھی، یہ انسانیت کی چیخ تھی، امید کا جنازہ تھا، اور ایک پوری نسل کا اجتماعی صدمہ۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں یتیم اور بیوائیں ہوئیں، اور سینکڑوں اسکول، اسپتال، سڑکیں، دفاتر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔مائیں اپنے بچوں کی لاشیں گود میں لیے پھرتی رہیں، باپ اپنی بیٹیوں کی قبر پر بیٹھے ٹوٹے الفاظ میں دعا مانگتے رہے، اور بچے اپنی ماں کی گود ڈھونڈتے رہے جو شاید کسی ملبے تلے ہمیشہ کے لیے سو چکی تھی۔اس سانحے نے حکومتوں کی کمزوری کو بھی عیاں کیا،

لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کی ہمدردی، اتحاد، اور جذبہ ایثار کی عظیم مثالیں بھی دیکھنے کو ملیں۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان سے رضاکار، طلبہ، ڈاکٹر، انجینئر اور سادہ لوگ بھی صرف ایک جذبے کے تحت آزاد کشمیر پہنچے کسی کی جان بچ جائے، کسی کو سہارا مل جائے۔

اسی سانحے کے بعد پاکستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا نیا باب لکھا گیا۔ ریاستی ادارے حرکت میں آئے، لیکن جو خلا پیدا ہو چکا تھا، وہ صرف وقت ہی پر کر سکتا تھا۔ بے گھر لوگوں کے لیے خیمہ بستیاں بنائی گئیں، امدادی سامان آیا، لیکن جو خالی پن ان کے دلوں میں بس گیا تھا، وہ شاید آج بھی ویسے کا ویسا ہے۔
آٹھ اکتوبر ہمیں یہ سکھا گیا کہ مضبوط عمارتیں، پکی سڑکیں، اور ظاہری ترقی ایک جھٹکے میں مٹی میں مل سکتی ہیں۔ لیکن اصل طاقت انسان کا حوصلہ، یکجہتی، اور خدمت کا جذبہ ہوتا ہے۔

آج، بیس سال سے قریب عرصہ گزرنے کے باوجود، آزاد کشمیر کی وادیاں شاید ظاہری طور پر سنور چکی ہوں، نئی عمارتیں بن چکی ہوں، لیکن ان عمارتوں کے سائے میں وہ درد آج بھی زندہ ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھویا، اپنے خواب ملبے تلے دفن ہوتے دیکھے۔
آٹھ اکتوبر ہمیں یہ سکھا گیا کہ مضبوط عمارتیں، پکی سڑکیں، اور ظاہری ترقی ایک جھٹکے میں مٹی میں مل سکتی ہیں۔ لیکن اصل طاقت انسان کا حوصلہ، یکجہتی، اور خدمت کا جذبہ ہوتا ہے۔

آج، بیس سال سے قریب عرصہ گزرنے کے باوجود، آزاد کشمیر کی وادیاں شاید ظاہری طور پر سنور چکی ہوں، نئی عمارتیں بن چکی ہوں، لیکن ان عمارتوں کے سائے میں وہ درد آج بھی زندہ ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھویا، اپنے خواب ملبے تلے دفن ہوتے دیکھے۔
آٹھ اکتوبر صرف ایک سانحہ نہیں، ایک داستان بے بسی، درد، قربانی اور حوصلے کی۔ اس دن نے ہمیں سکھایا کہ خواب ملبے تلے دفن ہو سکتے ہیں، لیکن قومیں اگر جاگ جائیں تو وہ ملبے سے بھی امید کی کرن نکال سکتی ہیں۔

زلزلہ صرف عمارتوں کا نہیں تھا، یہ اعتماد کا، سکون کا، تحفظ کے احساس کا، اور مستقبل کے خوابوں کا زلزلہ تھا۔
ہزاروں خاندانوں نے اپنی چھتیں، اپنے پیارے، اپنا سب کچھ کھو دیا۔ ماؤں کی گودیں خالی ہو گئیں، بچوں کے سروں سے سائے چھن گئے، اور بیویاں شوہروں کی راہ تکتے تکتے پتھر ہو گئیں۔
ایسے وقت میں جب ہر طرف ملبہ، خاموشی، چیخیں اور لاشیں تھیں، قوم نے محبت، اتحاد اور ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔
پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن شروع کیا۔ ڈاکٹر، نرسیں، طلبہ، سماجی کارکن اور عام شہری دن رات خدمت میں جُت گئے۔
بین الاقوامی برادری نے بھی پاکستان کا ساتھ دیا، لیکن سب سے مضبوط دیوار پاکستانی عوام کی یکجہتی بنی۔

یہ زلزلہ نہ صرف قدرتی آفت تھا بلکہ ہمارے کمزور انفراسٹرکچر، ناقص حکومتی تیاری اور غیر فعال ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا کڑا امتحان بھی۔
بدقسمتی سے بیشتر ادارے اس امتحان میں ناکام ہوئے۔ متاثرین کو بروقت امداد نہ ملی، کئی دنوں تک دور دراز علاقوں تک کوئی نہ پہنچ سکا۔
لیکن یہی بحران ایک موقع بھی بن گیا — ازسرِنو تعمیر، بہتر منصوبہ بندی، اور مستقبل کے لیے سبق۔آج، برسوں بعد بھی، مظفرآباد کی گلیوں میں وہ خاموشی محسوس کی جا سکتی ہے۔
آج بھی ان والدین کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں جن کے جگر گوشے اچانک بچھڑ گئے۔
آج اگر ہم ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے ملک کو قدرتی آفات کے خلاف مضبوط بنانا ہو گا، ایسا نظام لانا ہو گا جو بروقت ردعمل دے، اور عوامی شعور بیدار کرنا ہو گا۔یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں وہ چراغ دوبارہ جلانے ہیں جو ملبے تلے بجھ گئے تھے تاکہ آئندہ نسلیں محفوظ، باوقار اور باخبر رہیں۔
آج بھی وہ بچے بڑے ہو چکے ہیں جو اس وقت یتیم ہوئے تھے، مگر ان کی آنکھوں میں ایک خلا باقی ہے۔
۸ اکتوبر ہمیں صرف ماضی یاد رکھنے کا دن نہیں، یہ ہمیں مستقبل بہتر بنانے کا پیغام دیتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ خواب صرف آنکھوں میں نہیں ہوتے، وہ گھروں، اسکولوں، ہنستے چہروں اور پرسکون صبحوں میں بھی ہوتے ہیں— اور اگر ہم نے اپنا نظام نہ بدلا، تو ایسے خواب پھر دفن ہو سکتے ہیں۔
۸ اکتوبر ۲۰۰۵ کا زلزلہ تاریخ کا ایک اندوہناک باب ہے۔ اس دن ہم نے صرف اپنے عزیز نہیں کھوئے، ہم نے نسلوں کے خواب، اُمیدیں اور مسکراہٹیں بھی کھو دیں۔
لیکن اُن ہی خوابوں کی راکھ سے، ہمیں ایک نئے عزم، نئے جذبے اور مضبوط مستقبل کی تعمیر کرنی ہے۔اللہ تعالیٰ اُن تمام شہداء کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں مستقبل کے زلزلوں سے بچنے کی عقلمندی اور تیاری عطا کرے۔ آمین۔

Exit mobile version