سخت فیصلے لینا ہوں گے !
بھارتی جارحیت کے جواب میں بہت عرصہ کے بعد ہم نے بے مثال قومی سطح پر یگانگت اور ہم آہنگی دیکھی ہے، اس چار دن کی مختصر جنگ میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوئی اور دنیا کی نظروں میں ہم ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر سامنے آئے، لیکن بھارت میں نہ مانوں کی ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں ، وزیر اعظم شہباز شریف بارہا امن‘ ترقی‘ خوشحالی کیلئے برابری کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل نکالنے کی پیش کش کر چکے ہیں ، ایک بار پھربرطانیہ میں اور سیز کنونشن میں اپنی پیش کش دہرائی ہے،
یہ پیشکش جنوبی ایشیا کے امن کیلئے وسیع امکانات کی حامل ہو سکتی ہے‘ بشرطیکہ دوسرا فریق بھی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے، لیکن بھارت کل بھی امن کی کی آفر کو کمزور ی سے تعبیر کر رہا تھا اور آج بھی وہی پرانی غلطی دہرارہا ہے۔
بھارت ایک عرصے سے جاریحانہ پا لیسی پر گامز ن ہے ، جبکہ پا کستا ن نے ہمیشہ مذاکرات کی بات کی ہے ،پاکستان نے پہلگام واقعے کے دوران بھی بھارتی الزامات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی، یہ ایک بڑا قدم اور امن کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش تھی، مگر مودی سرکار کا جنگی جنون آڑے آیا
،اس کے نتیجے میں مودی سر کو داخلی اورعالمی ہزیمت کا سامنا کر نا پڑا،اس معرکہ حق کے بعد مودی سرکار کیلئے صدمے ہی صدمے ہیں، اس صورتحال میں سمجھدار قیادت امن کی پیشکش کو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا سمجھتی اور منجدھار سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے، مگر مودی سرکار کیلئے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
مودی سر کار سیاسی و سفارتی ناکا میوں کے باوجود سبق نہیں سیکھ رہی ہے ، بلکہ اپنی ہٹ دھرمی پر ہی قائم چلی آرہی ہے ، جبکہ وزیراعظم پاکستان نے امن کی پیشکش کے ساتھ ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان جنگی عزائم نہیں رکھتا اور اپنے عوام کی معاشی اور سماجی اصلاح‘ قومی ترقی‘ غربت کا خاتمہ اور معاشی امکانات سے استفادہ کرنا چاہتا ہے،جبکہ بھارت عجیب ادھیڑبُن کا شکار ہورہا ہے،وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ ساجھے داری کی دھن میں نہ اُدھر کے رہا نہ اِدھر کارہا ہے،
صدر ٹرمپ کے تجارتی ٹیرف کی کاری ضرب ابھی تازہ ہی تھی کہ اُس نے امریکی ویزے کی فیس میں بھی غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے ،اس سے استفادہ کرنے والوں میں بھارتی سرفہرست رہا ہے ،بھارت سے سارے ہی منہ موڑ رہے ہیں ، بھارت کیلئے ان حالات میں پاکستان کی جانب سے زیتون کی شاخ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
یہ اب بھارت پر منحصر ہے کہ اس امن کی آشاء کے ساتھ چلنا چاہتا ہے کہ اپنے جاریحانہ عزائم پورے کرنا چاہتا ہے، پا کستان نے بھارت کو واضح طور پر باور کروا دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل پر برابری کی سطح پر حل چاہتے ہیں،ایک بار پھر گیند بھارت کی کورٹ میں ہے، مودی سرکار اپنے ٹوٹے ہوئے پندار کے ساتھ کھڑے رہنے پر بضد ہے یا آگے بڑھنے کی ہمت کرے گا‘ اس کا اندازہ لگانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا،
کیو نکہ اب مودی کے پاس بھی زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے ،تاہم پاکستانی قیادت کی بھارت کو امن اور مذاکرات کی پیش کش کر نے سے زیادہ ذمہ داری ہے کہ اپنے دستیاب وسائل اور قومی تشخص کو قومی تعمیر وترقی کیلئے بروئے کار لائے، وزیراعظم شہباز شریف نے درست کہا ہے کہ اگر پاکستان فیصلہ کر لے تو جس طرح بھارتی طیارے گرائے گئے، اس طرح ہی غربت کا خاتمہ اور قرضوں سے نجات بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
یہ بات بھرپور عزم کی علامت ہے، لیکن اس عزم کا اظہار زبانی کلامی نہیں ، بلکہ عملی طور پر کر کے دکھانا ہو گا ، کیو نکہ اس ملک سے غربت اور معاشی بحران کا خاتمہ عسکری کارناموں سے زیادہ مشکل ہے، معیشت کیلئے سخت اصلاحات‘ ٹیکس نیٹ کی توسیع‘ برآمدات میں اضافے‘ کرپشن کے سدباب اور پالیسی کے تسلسل کی ضرورت ہے، وزیراعظم نے اوورسیز پاکستانیوں کے اجتماع میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع کا بھی ذکر کیا ہے،بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ہر سال اربوں ڈالر وطن بھجواتے اور ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ان کیلئے بیانات کے بجائے پالیسی کے ذریعے کاروباری اور صنعتی مواقع کیلئے آسانیاں پیدا کی جائیں،
سیاسی عدم استحکام‘ معاشی بدانتظامی اور پالیسیوں میں تسلسل کی کمی پاکستان کے کلیدی مسائل میں سے ہیں‘ اگر حکومت واقعی ملک کے قرضوں کے بوجھ اور غربت کو کم کرنا چاہتی ہے تو اسے سخت فیصلے لینا ہوں گے اور ٹیکس اصلاحات‘ توانائی کے شعبے میں شفافیت‘ سرکاری اداروں کی تنظیمِ نو اور سب سے بڑھ کر قانون کی بالادستی یقینی بنانا ہو گی، اس کے بغیر غیر ملکی سرمایہ کار ی لائیں گے نہ ہی سر مایہ کارواپائیں گے ،تو کیسے ملکی معیشت کو بہتر بناپائیں گے۔ !