انسانی حماقت اور آسمانی قہر
تحریر: آنسہ مسرت
بارش، بادل اور ہو۔۔۔۔یہ سب جب سکون سے چلتے ہیں تو زندگی کو سہارا دیتے ہیں، مگر جب یہی قوتیں قہر میں ڈھل جائیں تو بستیاں اجاڑ دیتی ہیں۔ وادیوں سے لے کر شہروں تک، کہیں کلاؤڈ برسٹ کا طوفان ہے، کہیں لینڈ سلائیڈنگ، کہیں اچانک اترتے ہوئے سیلابی ریلے۔ یہ سب محض موسمی حادثات نہیں، بلکہ انسانی دست درازی اور نافرمانیوں کا عکس ہیں۔
جنگلات کی بے دریغ کٹائی، دریا کے بہاؤ کو مصنوعی رکاوٹوں سے روکنے کے تجربات، اور پہاڑوں کے دامن میں غیر ذمہ دارانہ تعمیرات نے فطرت کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ نوسیری ڈیم میں دیودار کی وہ لکڑیاں جو جنگل مافیا اور وردی مافیا نے جمع کر رکھی تھیں، اچانک آئے سیلاب میں یوں بہہ گئیں جیسے قدرت نے خود اپنا انتقام لیا ہو۔ انسان نے سمجھا تھا کہ وہ زمین کو اپنی مرضی سے کاٹ کر، نچوڑ کر اور نوچ کر بھی مطمئن رہ سکتا ہے، لیکن قدرت نے اسے یاد دلایا کہ زمین کی سانس بند کرنا، آسمان کے قہر کو دعوت دینا ہے۔
یہ معاملہ صرف ایک وادی یا ایک ملک تک محدود نہیں۔ پاکستان کے شمالی پہاڑوں سے لے کر انڈین مقبوضہ کشمیر کی سرسبز وادیاں، نیپال کی ترائی سے لے کر بھارت کے شہروں تک، اور کبھی یورپ و امریکہ تک—زمین کے ہر خطے میں کہیں زلزلے، کہیں سیلاب، کہیں جنگلات کی آگ اور کہیں خشک سالی کی شکل میں یہی انتباہ سنائی دیتا ہے۔ یہ ایک عالمی الارم ہے کہ انسان نے اپنی فطرت دشمنی میں زمین کی برداشت کو ختم کر دیا ہے۔
مگر صرف ماحول ہی نہیں بگڑا، انسان کا اخلاقی وجود بھی بکھر چکا ہے۔ وادیوں اور شہروں میں کہیں درخت کاٹ کر ہوٹل بنائے گئے، کہیں پہاڑوں پر کنکریٹ کے جنگل اگائے گئے، اور کہیں سیاحت کے نام پر بدکاری، بے حیائی اور شور شرابے کو فروغ دیا گیا۔ غیر شادی شدہ جوڑوں کی آزادانہ بے راہ روی، سیاحتی مقامات پر مخلوط میل جول اور اخلاقی زوال نے ایسے اعمال کو جنم دیا ہے جو زمین و آسمان کو ناراض کرنے کے لیے کافی ہیں۔
اس پر مزید یہ کہ کرپشن، ناانصافی، اقرباپروری اور ظالم کو سہولت دینے کے رویے نے انسان کو اپنے اصل مقام سے گرا دیا ہے۔ حکمران اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں، عوام بے بسی میں کچلے جا رہے ہیں، اور معاشرتی ڈھانچہ کرچی کرچی ہو رہا ہے۔ ایسے میں قدرت کی للکار صرف پہاڑوں پر برستی بارش نہیں بلکہ معاشروں کے زوال کی شکل میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔
یہ سب صرف فطرت کی بے رحمی نہیں بلکہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ قرآن کریم کی یہ آیت گویا اسی حقیقت پر مہر ثبت کرتی ہے:
“وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ”
(الشوریٰ: 30)
آج کے حادثات ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ زمین کا نوحہ ہے اور قدرت کی للکار بھی۔ ہمیں یہ یاد رہنا چاہیے کہ زمین کا دکھ، انسان کی بداعمالیوں کا آئینہ ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی روش نہ بدلی، جنگلات کے کٹاؤ کو نہ روکا، ماحول کے توازن کو بحال نہ کیا اور اخلاقی گراوٹ کو کنٹرول نہ کیا تو نہ وادیاں محفوظ رہیں گی، نہ شہر، نہ بستیوں کے مکین اور نہ ہی تمدن۔ زمین کے زخم بڑھتے رہیں گے اور آسمان کے قہر کے طوفان مزید شدت اختیار کرتے جائیں گے۔
مگر یہ تباہی ناقابل واپسی نہیں۔ اگر انسان اجتماعی طور پر توبہ کرے، عدل کو غالب کرے، زمین کے وسائل کی حفاظت کرے، بے حیائی کو روکے اور فطرت سے ہم آہنگ طرزِ زندگی اپنائے تو یہی زمین جو آج ماتم کناں ہے، کل پھر رحمتوں کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
ہمیں یہ یاد رہنا چاہیے کہ زمین کا صبر لامحدود نہیں۔ اگر ہم نے اس کی آہٹوں کو نہ سنا، تو کل کو یہ چیخیں سنائی دیں گی اور تب وقت پلٹنے کا موقع نہیں ہوگا۔