Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

وحشی اور وحشت

وحشی اور وحشت

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

محکمہ پولیس ،ٹریفک،ڈولفن، محافظ اوروہ ادارے جن کا براہ ِ راست عوام کا واسطہ پڑتارہتا تھا نہ جانے ان کے اہلکاروں اور افسروںکی تربیت کس میکنزم کے تحت کی جاتی ہے کہ وہ جہاںغریب، مجبور اور کمزور وں کو دیکھتے ہیں ان کی آنکھوں میں وحشت ناچنے لگتی ہے اور وہ وحشی ہوکر تمام حدود وقیود سے تجاوزکرجاتے ہیں حالانکہ ان میں سے زیادہ کا تعلق لوئرمڈل کلاس سے ہوتاہے لیکن عام آدمی سب سے زیادہ انہی کے متاثرین میں شامل ہیں۔ روزانہ ہمارے چاروں اطراف اتھری پولیس کے کارناموں اور ظلم کی داستانوںکا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ درازہے جس نے عام آدمی کیلئے وردی کو خوف کی علامت بناکررکھ دیاہے سوشل میڈیا اور صحافت کاڈر نہ ہو تو اتھرے اور منہ زور اہلکارمعاشرے میںجنگل کے قانون کوبھی مات دے دیں اور کسی مقبوضہ علاقے میں ہونے والے مظالم سے بھی زیادہ خوفناک مناظر دل دہلادیں ۔
چند روز میں رونما ہونے والے واقعات کی ایک جھلک ہی ہر ذی شعور کے رونگٹے کھڑے کردینے کے لئے کافی ہے ایک انتہائی خوفناک اور ذہنی پستی کی انتہاہے جس میں ایک پولیس اہلکار نے مزاحمت کے دوران گرفتار ہونے والی خاتون کے سامنے پینٹ کی زپ کھول دی۔۔۔ باریش موٹروے پولیس اہلکار کی غنڈہ گردی کی وہ ویڈیو تو سب نے دیکھی ہوگی جس میں جس کی لاٹھی اسکی بھینس والے قانون کی مثال قائم کرتے ہوئے ایک نوجوان کی جوتوںسے پٹائی کی جارہی ہے جسے ایک صحافی میاں عمران ارشد نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا۔ وہ نوجوان بھی نہیں بھولتا جس کی کہانی معروف صحافی عقیل انجم اعوان بتاتے ہوئے لکھتے ہیں’’

شہر کی ایک مصروف سڑک پر ٹریفک پولیس اہلکار نے ایک موٹر سائیکل سوار کو روکا۔ وہ شخص پسینے میں شرابور تھا اور اس نے نرمی سے کہا کہ “سر جی معافی دے دیں، مہربانی کریں”۔ اس کے باوجود پولیس اہلکار نے اسے موٹر سائیکل سے نیچے اتارا، دھکا دیا اور موٹر سائیکل ضبط کر لی۔ اس واقعے کو دیکھنے والے کئی افراد کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ پولیس اور عوام کے تعلقات میں یہ کشیدگی کیوں بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں پولیس کا بنیادی کردار ٹریفک قوانین کا نفاذ اور عوام کی سہولت کو یقینی بنانا ہے، لیکن اکثر کمزور یا غریب طبقے کے ساتھ پولیس کا رویہ سخت محسوس ہوتا ہے۔ ایسے واقعات عوام کے اعتماد کو متاثر کرتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ساکھ پر سوال اٹھاتے ہیں۔
بابا فرید کے شہر پاک پتن میں ہونے ولا ظلم سب کویاد ہوگا جب پولیس والے ایک خاتون کے گھر میں گھس کر اسے تھپڑ رسید کررہے ہیں یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔۔ مجھے وہ نوجوان بھلائے بھی نہیں بھولتا جس نے ٹریفک اہلکاروں کے رویہ سے دلبرداشتہ ہوکر اپنے موٹرسائیکل کو ہی آگ لگادی

یا وہ حالات سے پریشان بیروزگارشخص جس نے وارڈن کو چالان نہ کرنے کی التجا کرتے ہوئے کہا وہ بیروز گارہے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی تنگ آکر اس نے اپنے اوپر پٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگانے ہی والا تھا کہ لوگوں نے منت مساجت کرکے اسے بچا لیا۔
اب سوشل میڈیا پروائرل ہونے والی ایک تازہ ترین ویڈیونے دل مسوس کرکے رکھ دیا ہے ’’ پاپا جی اندر جاؤ، شلوار پہن لو” — جوان بیٹی کی اپنے باپ سے فریادمنڈی بہائوالدین کی تحصیل پھالیہ میں پولیس کی جانب سے چادر اور چار دیواری کی بیحرمتی کا افسوس ناک واقعہ جب پولیس ایک گھر میں گھس کر کی جانے والی گرفتاری کے دوران ہاتھا پائی شدت اختیار کر گئی۔ افسوسناک صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب عمر رسیدہ، سفید بالوں والے بزرگ کو عزتِ نفس مجروح کرتے ہوئے برہنہ کر دیا گیا۔ یہ منظر نہ صرف اس خاندان کے لئے صدمہ ہے بلکہ پورے معاشرے کیلئے باعثِ شرمندگی ہے۔
مردان کے چارسدہ چوک میں ٹریفک پولیس کی مبینہ غیر قانونی کارروائیوں کے خلاف ایک اور المناک واقعہ پیش آیا ہے۔ 4 اگست 2025 کو ایک غریب ڈرائیور نے اپنے اوپر عائد کیے گئے مبینہ ناجائز چالان کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنی تیز رفتار گاڑی کو آگ لگا دی۔ یہ واقعہ ٹریفک اہلکاروں کی غیر قانونی ڈیمانڈز اور بڑھتے ہوئے مہنگائی کے دور میں عوام کی بے بسی کی ایک واضح مثال ہے۔عینی شاہدین کے مطابق، مذکورہ ڈرائیور مسلسل اپیل کرتا رہا کہ اس پر لگایا گیا جرمانہ ناجائز ہے، لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ اس بے حسی اور لاپروائی نے ڈرائیور کو ایسا سخت قدم اٹھانے پر مجبور کیا جو نہ صرف اس کے لیے تباہ کن تھا بلکہ معاشرے میں ایک سوال بھی کھڑا کر گیا۔
یہ محض چند دنوں میںعوام پر ہونے والے ظلم کی کہانیاں ہیں کہی ان کہی حقیقتیں اس کے علاوہ ہیں جو پورے پاکستان کے گلی کوچوںمیں جابجا بکھری پڑی ہیں حالات کے تناظرمیں دیکھا جائے تو یہ پہلا موقعہ ہرگز نہیں ہے جب عوام نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ظالمانہ روئیے۔غیر انسانی سلوک اور غیر قانونی مطالبات کے خلاف انتہائی قدم اٹھایا ہو سچ تو یہ ہے تواتر سے رونما ہونے والے ایسے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اختیارات کے ناجائز استعمال سے عوم کس قدر تنگ آ چکے ہیں

اختیارات سے تجاوز آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکاہے جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ہی جہاںغریب، مجبور اور کمزور وں کو دیکھتے ہیں ان کی آنکھوں میں وحشت ناچنے لگتی ہے اور وہ وحشی ہوکر تمام حدود وقیود سے تجاوزکرجاتے ہیں جس کا تدارک انتہائی ضروری ہے۔
حکومت کو اندازہ ہونا چاہیے کہ عوام اس وقت پہلے ہی مہنگائی، غربت،ٹیکسزکی بھرمار اور بے روزگاری کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں، اور ایسے حالات میں عام آدمی کی عزت ِ نفس کو مجروح کرنا ۔ غیر انسانی رویہ ، بھاری بھرکم چالان اور مطالبات ان کے لئے مزید مشکلات کا باعث بن رہے ہیں

۔ ایک طرف زندگی کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو رہا ہے اور دوسری طرف ان اداروں کی طرف سے غیر قانونی ڈیمانڈز عوام کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر رہی ہیں جس سے ان کے دل و دماغ میں بے چینی بڑھ رہی ہے یہ ایک سنگین مسئلہ بن چکاہے جو عوا کو بغاوت اور خانہ جنگی کی طرف بھی مائل کر سکتاہے۔ ایسے میں، یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایک عام شہری کہاں جائے اور کس سے انصاف کی امید رکھے۔ کیا عوام کو احتجاج کے ایسے راستے ہی اختیار کرنے پڑیں گے؟ حکومت کو بھی چاہے کہ وہ ٹریفک پولیس کو چالانوںکا ٹارگٹ یا ریونیو اکٹھا کرنے کی حوصلہ شکنی کریں اس سے بڑے سماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ایسے واقعات قانون نافذکرنے والے اداروں اور ٹریفک پولیس کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے اور اعلیٰ حکام کو اس پر فوری نوٹس لینا چاہیے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جہاں عوام کی شکایات کو سنا جائے اور ان کا ازالہ کیا جائے بصورت دیگر، ایسے دلخراش واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور عوام کا اداروں پر اعتماد مزید کم ہوتا جائے گا۔
پولیس کی جانب سے چادر اور چار دیواری کی بیحرمتی کے واقعات کا تسلسل نہ صرف انسانی وقار کی توہین ہے بلکہ پولیس اصلاحات کے دعوؤں کی نفی بھی کرتا ہے جو ایسے واقعات کے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے متاثرہ خاندان کو انصاف اور تحفظ فراہم کیا جائے ، محکموں میں موجود چند کالی بھیڑوں کے باعث معاشرے کا حسن متاثر ہورہاہے انہی کی وجہ سے عوام کو مسائل درپیش ہیں

قانون کی پاسداری تمام شہریوں پر لازم ہے اور اس کا نفاذ یکساں ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ضروری ہے کہ پولیس اہلکار عوام سے بات چیت اور کارروائی کے دوران پیشہ ورانہ رویہ اختیار کریں اس مقصد کے لئے اہلکاروں کی تربیت، نگرانی اور احتساب کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے صرف اسی طرح پولیس اور عوام کے درمیان بڑھتے ہوئی خلیج کو کم کیا جاسکتاہے پاکستان کی عوام قانون نافذ کرنے والے اداروں، سماج دشمن عناصر کے خلاف اپنی تمام فورسزکی قربانیوں کی معترف ہے اور ان کو قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے کہ انہی وجہ سے وہ اپنے اپنے گھروںمیں سکون کی نیند سوتے ہیں عوام امن و امان کے قیام کے لئے ہرممکن تعاون کررہی ہے لیکن اگر پولیس اور عوام کے درمیان تعلقات کو باہمی احترام اور اعتماد کی بنیاد پر استوار نہ کیا گیا تو اس طرح کے واقعات عوام کے لئے، بے چینی، بے سکونی اور اضطراب میں اضافہ کرتے رہیں گے جو سماجی ہم آہنگی کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔

Exit mobile version