امر یکی صدر سے فیلڈ مارشل کی تاریخی ملاقات !
دنیا بھر میں آجکل فیڈ مارشل عاصم منیر کے امر یکہ دورے کی دھوم ہے ، جنرل عاصم منیر امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا کی دعوت پر امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں، انہوں نے دو روز پہلے امریکی افواج کے 250 سال مکمل ہونے کی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی اور اب وہائٹ ہائوس میں ان کی ملاقات صدر ٹرمپ سے ہوئی ہے، اس موقع پر میڈیا کی عدم موجودگی کی وجہ سے کوئی براہ راست رپورٹنگ نہیں ہوئی،مگر اب کچھ تفصیلات سامنے آہی ہیں ،اس ملاقات کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو پاک بھارت جنگ روکنے پر شکریہ ادا کرنے کیلئے مدعو کیاگیا ہے ،فیلڈ مارشل سے ملاقات میرے لیے اعزاز ہے
،اس ملاقات میںپاکستان سے تجارتی معاہدے کے ساتھ ایران اسرائیل جنگ بارے بھی تبادلہ خیا لات کیا گیا ،یہ تاریخی ملاقات علاقائی اور عالمی استحکام میں کلیدی شراکت دار کے طور پر پاکستان کی عسکری قیادت پر بڑھتے ہوئے اعتماد اور اہمیت کی نشاندہی کرتی ہے۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان میں ایک جمہوری نظام کام کر رہا ہے اور میاںشہباز شریف وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں،اگر امریکی صدر اہم امور پر پاکستانی حکومت سے رابطہ کی خواہش رکھتے تھے تو وہ پاکستانی وزیر اعظم کو دعوت دے سکتے تھے،
جوکہ وہائٹ ہائوس کے ظہرانے میں شریک ہونے کے خواہش مند رہے ہیں، لیکن اس کے بجائے انہوں نے فیلڈ مارشل کو مدعو کرنے اور ان سے بات چیت کو ترجیح دی ہے،کیوں کہ انہیں ہی پاکستان کا اسٹرانگ مین سمجھا جاتا ہے اور یہ باور کیا جاتا ہے کہ اگر پاکستان کے ساتھ معاشی، اسٹریٹیجک یا سیاسی معاونت پر معاملات طے کرنے ہیں تو براہ راست فوج سے بات کرنی چاہیے، یہ بات کہنے اور سننے میں کوئی حرج نہیں ،لیکن جب عملی طور پر ملک کے منتخب لیڈر کی بجائے فوج کا سربراہ امریکہ کے صدر سے ملتا ہے
تو اسے پاکستان کے جمہوری نظام کی بے بسی اور کمزوری کے سوا کوئی دوسرا نام دینا مشکل ہو جاتا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ گزشتہ ادوار میں میاں نواز شریف اور عمران خان بھی فوج کے تعاون سے ہی حکومت کرتے رہے ہیں ،لیکن انہوں نے کبھی اپنے آرمی چیف کی براہ راست وہائٹ ہائوس میں امریکی صدر سے ملاقات کی اجازت نہیں دی ، لیکن اس بار میاں شہباز شریف کو ’اعزاز‘ حاصل ہواہے کہ اس پر کوئی اعتراض کر رہے ہیں ،بلکہ خوشی کا اظہار بھی کر رہے ہیں ، جوکہ ان کی کمزور اور بے اختیار جمہوری حکومت کی نشاندہی کر تی ہے،اس کے باوجوداسے ہی بلا جائے گا ،جو کہ سر براہ کے طور پر نظر آئے گا،
اس ملاقات کو بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے ، کیو نکہ پاک بھارت جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان دنیا میں سفارتی اثر و رسوخ بڑھانے اور اپنا موقف واضح کرنے کے لیے پر زور کوششیں کی گئی ہیں،بھارتی سفارتی وفد نے حال ہی میں واشنگٹن کے دورے کے دوران امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس سے ملاقات کی تھی، نئی دہلی نے اسے پاکستان پر بھارتی سبقت کے طور پر پیش کیا ،
اس تناظر میں امریکی صدر سے پا کستانی وزیر اعظم کی نہیں تو کی پاکستانی فیلڈ مارشل کی ملاقات پاکستان کے لیے انتہائی خوش آئند سمجھی جانی چاہیے۔اس عزت افضائی پر جہاں پا کستانی عوام انتہائی خوشی کا اظہار کررہے ہیں ، وہیں پاکستان کی عسکری قیادت پر بڑھتے امریکی اعتماد کی عکای بھی ہورہی ہے ،بھارتی وفد سے پہلے پاکستان کے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو وائٹ ہائوس مدعو کرنا امریکی خارجہ پالیسی میں پاکستان کی سٹرٹیجک ترجیحات کا واضح اشارہ ہے، چند روز قبل ہی امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے چیف جنرل مائیکل کوریلا نے بھی پاکستان کو انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں ایک شاندار اور قابلِ اعتماد اتحادی قرار دیتے ہوئے داعش اور دیگر دہشتگردوں کے خلاف پاکستان کی کاوشوں کا اعتراف کیا تھا
اور ’ہائوس آرمڈ سروسز کمیٹی‘ کے روبرو امریکہ کی پاکستان سے سٹرٹیجک پارٹنرشپ کی وکالت کی تھی ،اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ پہلی بارپاک امریکہ تعلقات باہمی احترام‘ مشترکہ اقدار اور یکساں سٹرٹیجک مفادات کی بنیاد پر استوار ہورہے ہیں اور دونوں ملکوں میں سکیورٹی بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علاقائی استحکام کو نہ صرف کلیدی اہمیت دی جارہی ہے ،بلکہ امر یکی صدر کے رویئے میں بھی تبدیلی آرہی ہے ،
اس تاریخی ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ کے بدلتے رویئے کو دیکھتے ہوئے اُمید کی جارہی ہے کہ صدر ٹرمپ ایران کے معاملے میں کسی جلد بازی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے امن کو ایک موقع ضروردیں گے ،سولو فلائٹ کے بجائے دنیا کو ساتھ لے کر چلیں گے اور اپنے ہی بیا نیہ کو تقویت دیں گے کہ ہم جنگ کر نے نہیں ، دنیا میںامن قائم کر نے آئے ہیں۔