ابن ِ خلدون کی پاکستان بارے پیشگوئی
جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی
7صدیاں قبل لکھی گئی دنیا کے ممتاز فلسفی ابن خلدون کی ایک تحریر!نے کمال کردیایوں محسوس ہوتاہے جیسے انہوں نے یہ آج کے پاکستان بارے لکھا ہو ابنِ خلدون کی بات تو سچ ہے لیکن یہ بات بھی رسوائی کی ہے پاکستان آزاد تو77سال پہلے ہوگیا تھا لیکن یہاں عام آدمی آج بھی محکوم بلکہ اشرافیہ کا غلام ہے ان کا لکھا کس قدر ہمارے حسب ِ حال ہے کہ حیرت ہوتی ہے ابن خلدون کا کہنا ہے ‘‘محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے دستبردار ہو جاتا ہے ، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، ایک وقت آتا ہے
کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔ ’’جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومی، بھکاری، منافق، ڈھونگ رچانے والے، چغل خور، کھجور کی گٹھلیوں کے قاری، درہم و دینار کے عوض فتویٰ فروش فقہیہ، جھوٹے راوی، ناگوار آواز والے متکبر گلوکار، بھد اڑانے والے شاعر، غنڈے، ڈھول بجانے والے، خود ساختہ حق سچ کے دعویدار، زائچے بنانے والے، خوشامدی، طنز اور ہجو کرنے والے، موقع پرست سیاست دانوں اور افواہیں پھیلانے والے مسافروں کی بہتات ہوجاتی ہے‘‘۔ ( غورکا مقام ہے سوچیں اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں
کہ یہ ساری باتیں پاکستانی معاشرے پر صادق نہیں آتیں) ’’ہر روز جھوٹے روپ کے نقاب آشکار ہوتے ہیں مگر یقین کوئی نہیں کرتا ، جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتا وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے، اہل ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں، نظم و نسق ناقص ہو جاتا ہے، گفتار سے معنویت کا عنصر غائب ہوجاتا ہے ، ایمانداری کو جھوٹ کے ساتھ، اور جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔‘‘( پاکستانی معاشرے کی جیتی جاگتی حقیقت بھی یہی ہے کہ ہم ایک قوم بننے کی بجائے اپنی عافیت ذاتوں،برادریوں، لسانی گروہوں،فرقہ واریت اور سرمایہ داری نظام، جاگیرداری سسٹم اورلاحاصل بحث مباحثہ میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں ابن خلدون نے 7 سوسال پہلے ہی پیش گوئی کردی تھی کہ)’’ جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں،
تو ہر سو دہشت پھیلتی ہے اور لوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں، عجائبات ظاہر ہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں، بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں، دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے، باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے، مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملنسار چہرے سطح سے غائب ہو جاتے ہیں، حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں، عقلمند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے، لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔( دراصل جب انسان روشن ضمیرہوجاتاہے توعلوم اس پر حقیقت ِ حق آشکارکردیتاہے
اس طرح اس کی باتیں ایک ایسا آئینہ دکھائی دیتاہے جس میں وہی نظر آتاہے جو اصل ہوتاہے یہاںتو مٹی چہرے پر پڑی ہوتی ہے اور اکثرآئینہ صاف کرتے دکھائی دیتے ہیں بڑی بڑے مذہبی ،سیاسی، معاشرتی رہنمائوںکا یہ حال ہے کہ وہ حقیقت کے برخلاف اپنی را ئے دوسروںپر تھونپ کر سمجھتے ہیں انہوںنے تیرمارلیاہے اسی تناظرمیں ابن ِ خلدون جیسے فلسفیوں کا لکھا معتبر ہوجاتاہے وہ لکھتے ہیں) ’’مبلغین کے شور شرابے میں دانشوروں کی آواز گم ہو جاتی ہے۔بازاروں میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے اور وابستگی کی بولیاں لگ جاتی ہیں، قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدہ اور مذہب کی بنیادی باتیں ختم ہو جاتی ہیں
اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔‘‘ ’’ بالآخر حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے “ہجرت”، ہر کوئی ان حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے، تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے، وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے، لوگوں کا کل سازو سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے، چراگاہیں ویران ہونے لگتی ہیں، وطن یادوں میں، اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں‘‘۔( اب آپ ہی بتائیے کیا یہ سب کچھ پاکستانی معاشرے کی حقیقت کشائی نہیں کی گئی ایک حکومتی سروے میں کہا گیا
کہ صرف ایک سال کے دوران 800000 سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں جابسے اور دن بہ دن خود جلاوطن ہونے والوںکی تعدادمیں برابر اضافہ ہوتاچلاجارہاہے اور حکومت کو اس بارے مطلق احساس نہیں کہ ملک جوہر ِقابل سے خالی ہوتاجارہاہے حکمران اور اشرافیہ اس بات سے خوش ہیں کہ ملک میں ان’’ جلاوطنوں‘‘ کی وساطت سے زر ِ مبادلہ آرہاہے ۔۔ کیا ابن ِ خلدون کی پیش گوئی سچ ہورہی ہے کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے “ہجرت”، ہر کوئی ان حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے، تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے،
وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے، لوگوں کا کل سازو سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے، چراگاہیں ویران ہونے لگتی ہیں، وطن یادوں میں، اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں‘‘) اور اہلیان ِ وطن کے لئے یہ یادیں اتنی بھیانک ہو جاتی ہیں کہ اپنے پیاروںکی جدائی میں وہ دن رات تڑپتے رہتے ہیں بیماری، دکھ ،تکلیف میں کوئی اپنا پاس نہ ہو تو دل پر کیا گذرتی ہے یہ وہی جانتے ہیں کبھی ’’جلاوطن‘‘ غریب الدیاربن کرپردیسی ملک میں منوں مٹی تلے سو جاتے ہیں
اور حالات کی ستم ظریقی، مالی مشکلات، بروقت فلائٹ نہ ملنے کے باعث کبھی وہ اپنے پیاروںکا آخری دیار بھی نہیں کرپاتے غیر جنازے اٹھاتے ہیں تو ان کے دلوںپر کیا حشر بپا ہوتا ہوگا یہ ناقابل ِ بیان ہے جبکہ حکمران اور اشرافیہ اس بات سے خوش ہیں کہ ملک میں پردیسیوںکی وساطت سے زر ِ مبادلہ آرہاہے۔ آہ ابن ِ خلدون آہ آپ کتنے روشن ضمیر تھے