پنجاب کا عوام دوست بجٹ !
پاکستان میں مالی سال کا آغاز جولائی سے ہوتا ہے اور ہر سال جون کے مہینے میں حکومت کیلئے وفاقی و صوبائی سالانہ بجٹ پیش کرنا ایک قانونی تقاضا ہے ،مگر اس کی عوام میں کوئی زیادہ اہمیت دکھائی نہیں دیتی ہے ،کیونکہ اس بجٹ میں عوام کے بجائے اشرافیہ کیلئے ہی سب کچھ ہوتا ہے اور اشرافیہ کو ہی نوازا جاتا ہے ،اس بار بھی ایسا ہی کچھ کیا گیا ہے، وفاقی بجٹ کو عوام دوست بجٹ کہا جارہا ہے ، جبکہ ر پنجاب کا صوبائی بجٹ پیش کر نے کے بعد کہا جارہا ہے کہ ٹیکس فری بجٹ پیش کیا گیا ہے
،اس بجٹ میںکوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ،پہلے سے ہی لاگوٹیکسوں کی وصولی کو یقینی بنایا جائے گااور عوام پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا جائے گا،کیا ایسا ہی کچھ کیا جائے گا یا اس کے بعد ایک منی بجٹ لایا جائے گا اور اس بجٹ میں جو کچھ نہیں لاگیا ،اُس بجٹ میں لگایا جائے گا۔
اگر دیکھا جائے تو ہر دور حکو مت میں وہی کچھ ہوتاا ٓیا ہے ،جو کہ اس بار ہورہا ہے ،اس سے قبل بھی عوام دوست بجٹ کی دوہائی دی جاتی رہی ہے اس بار بھی دی جارہی ہے ، اس میں بیانیہ میں اتنااضافہ ضرور ہوا ہے
کہ حکومتِ پنجاب مالی سال 2026ء کا 5335ارب روپے کا ٹیکس فری بجٹ پیش کرنے کا دعوا کررہی ہے ،یہ بجٹ بلند اہداف‘ ریکارڈ ترقیاتی اخراجات اور سماجی شعبوں کی بہتری کے دعوئوں سے بھرپور ہے ،لیکن اگر اس کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا یہ بجٹ عوامی ضروریات کی عکاسی بھی کرتا ہے؟ کیا اس میں زرعی معیشت‘ دیہی ترقی اور عام آدمی کی مشکلات کا ازالہ کیا گیا ہیاور عوام کو واقعی رلیف دیا گیا ہے؟
اگربجٹ کی جزئیات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2706ارب روپے‘ یعنی تقریباً نصف سے زائد بجٹ صرف غیر ترقیاتی اخراجات کیلئے مختص کیا گیا ہے ،اس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشنز بھی شامل ہیں‘ اس میں بالترتیب 10 اور 5 فیصد ہی اضافہ کیا گیا ہے،اس بجٹ کا تقریباً نصف حصہ محض سرکاری مشینری کو رواں رکھنے پر خرچ ہو گا جبکہ عوامی فلاح و بہبود‘ روزگار اور پیداواری شعبوں کیلئے قلیل وسائل مختص کیے گئے ہیں،
صوبائی حکومت نے ترقیاتی سکیموں کیلئے 1240ارب روپے مختص کیے ہیں ،جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 47 فیصد زیادہ ہیں، اس طرح ہی شعبہ تعلیم کیلئے 811ارب روپے اور شعبہ صحت کیلئے 630ارب روپے مختص کیے گئے ہیںاورجن شعبوں کو بجٹ میں یکسر نظرانداز کیا گیا ہے، اس میں زراعت سرفہرست ہے‘ یہ ایک ایساشعبہ ہے، جو کہ پنجاب کی معیشت کی جان ہے اور ملک کی غذائی خودکفالت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے،اس کے باوجود نظر انداز کر نا سمجھ سے بالا تر ہے۔
یہ بات سب ہی جا نتے ہیں کہ ہماری معیشت کی قوتِ متحرکہ زراعت ہے اور ملکی برآمدات‘ اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے اور خوراک کی دستیابی میں بھی کلیدی کردار کی حامل ہے،اس کے باوجود اس بجٹ میں زراعت‘ لائیوسٹاک اور آبپاشی کیلئے 129 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جو کہ زراعت کی بحالی اور پیداوار بڑھانے کیلئے ضرورت سے بہت ہی کم ہیں،اس وقت زرعی مداخل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں،
کسان پانی‘ بیج‘ کھاد اور مارکیٹ تک آسان رسائی جیسے بنیادی مسائل سے نبرد آزما ہے‘ مگر بجٹ میں ان مسائل کو ترجیح ہی نہیں دی گئی ہے،وفاقی بجٹ میں بھی زرعی پیداوار میں ہونے والی کمی کے ازالے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے، اس کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ پنجاب کی معیشت میں زراعت کا سب سے بڑا حصہ ہے تواس شعبے پرخصوصی توجہ دی جائے گی، مگر پنجاب کے بجٹ میں بھی زراعت کا شعبہ ضروری توجہ سے محروم ہی رہاہے۔
دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور جنگوں کے بڑھتے خطرات کے پیش ِنظر پوری دنیا فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے فکر مند ہے‘ ایسے میں پنجاب کی زرخیر زرعی زمین کسی نعمت سے کم نہیں ہے،اس صوبے میں خوراک کی پیداوار میں اضافہ کیا جانا چاہیے تھا ، جو کہ نہیں کیا جارہا ہے ،پنجاب 12کروڑ سے زائد آبادی کا صوبہ ہے‘یہ تعداد ملک کی نصف آبادی کے لگ بھگ ہے؛ ملک کی آدھی آبادی کی فلاح و بہبود اس بجٹ پر مدار کرتی ہے،اس لیے صوبے کو روایتی بجٹ سازی سے آگے نکل کر اب ایسے اقدامات کی ضرورت ہے ،جو کہ معیشت کو مضبوط بنیادیں اور عوام کو خوشحال زندگی فراہم کریں،اس کے بعد ہی عوام دوست بجٹ کا نعرا لگایا جاسکتا ہے اور عوام دوست بجٹ منوایا جاسکتا ہے ۔
اس حکومت کا وفاقی بجٹ ہو یا پھر صوبائی بجٹ، عوام دوست بجٹ ہے نہ ہی متوسط ، غریب طبقے کے لیے کسی ریلیف کا باعث ہے، بلکہ مہنگائی، بیروزگاری اور بدانتظامی کا ہی تسلسل ہے ،اس بجٹ کے بعد بھی تعلیم، صحت، روزگار اور انفرا اسٹرکچر جیسے بنیادی مسائل بدستور حل طلب ہیں اور حکومت ان پر سنجیدہ اقدامات کرنے کے بجائے محض زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے اور عوام پر سارا بوجھ ڈال کر بھی بتارہی ہے کہ اس بجٹ میںعوام پر بوجھ نہیں ڈالا جارہاہے ، عوام کو کب تک ایسے بیانات سے بے وقوف بنایا جاتا رہے گا،
اب وقت آ گیا ہے کہ اس بجٹ کے دھوکے کو عوام پہچانیںاور اپنے حق کے لیے مزاحمت کریں اور اپنی عوامی طاقت سے ایسی حکمرانی کو مسترد کریں ،جو کہ صرف اپنے مفادات کی ہی نگہبان ہونہ کہ عوام کی خیرخواہ ہو ، عوام جب تک اپنی حق تلفی خاموشی سے بر داشت کرتے رہیں گے ،اس طر ح کے ہی عوام دوست بجٹ کے غلاف میں عوام دشمن بجٹ آتے رہیں گے۔