یقین کی طاقت
جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی
امام حرم مکی شیخ یاسر الدوسری کا کہنا ہے ’’جو آدمی لیبیا کے اس نیک و صالح عامر کو دیکھے، اُسے چاہیے کہ اُس سے اپنے لئے دعا کروائے، کیونکہ وہ وہی انسان ہے جو پورے یقین سے کہتا رہا: ‘یہ جہاز میرے بغیر نہیں اُڑ سکتا!اور واقعی… اللہ نے اُس کی زبان پر یقین کی مہر ثابت کر دی! ایسا یقین، ایسا توکل… دلوں کو ہلا دینے والا ہے۔ اللہ ہمیں بھی ایسا اخلاص، ایسا یقین، ایسی قربت عطا فرمائے‘‘۔
دیکھنے والوںکے لئے یہ ایک تماشا تھا ایک دم بخود کردینے والا تماشہ ایک آدمی50فٹ اونچی دو عمارتوں کے درمیان تنے ہوئے رسے پر بڑی مہارت کے ساتھ چل رہا تھا مزے کی بات یہ تھی کہ اس کے کاندھے پر اس کا بیٹا بیٹھا تھا رسہ اونچے نیچے ہوتا تو گلتا تماشائیوں کے سانس جیسے اوپر کے اوپر نیچے کے نیچے رہ جاتے لیکن وہ بہت آرام سے اپنے دونوں ہاتھوں میں ایک ڈنڈا پکڑے ہوئے سنبھل رہا تھا ایک بزرگ چلا اٹھے اتنا خطرناک کھیل ۔۔ آخر یہ سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی لوگ اس تماشے کو دیکھے بغیر بھی اس غریب کی مدد کرسکتے تھے زمین پر کھڑے تمام لوگ دم سادھے کھڑے یک ٹک اسے دیکھ رہے تھے جب وہ آرام سے دوسری عمارت تک پہنچ گیا تو لوگوں نے تالیوں کی بھرمار کر دی اور اسکی خوب تعریف کی۔ اس نے لوگوں کو مسکرا کر دیکھا اور بولا،
کیا آپ لوگوں کو یقین ہے میں واپس اسی رسے پر چلتا ہوا دوسری طرف پہنچ جاؤں گا؟ لوگ چلا کر بولے، ہاں ہاں تم ایساپھرکر سکتے ہو ہمیں تم پر یقین ہے۔
سب کو مجھ پربھروسہ ہے؟ اس نے استفسارکیا یقین ہے‘‘
لوگوں نے کہا ہاں ہم تم پر شرط لگا سکتے ہیں تم پھر ایسا کرسکتے ہو۔ تماشا دکھانے والا نیچے آگیا لوگوںنے اس کی مدد بھی کی اس نے پھر اپنا سوال دہرایاکیا آپ لوگوں کو یقین ہے میں واپس اسی رسے پر چلتا ہوا دوسری طرف پہنچ جاؤں گا؟ اور مجھے کچھ نہیں ہوگا تماشائیوں نے گلے پھاڑ کرکہاں ہاں تم ایساپھرکر سکتے ہو ہمیں یقین ہے تم پہلے بھی ایسا کر چکے ہو۔
اس نے مسکراہٹ نے کہا،’’ٹھیک ہے، کیا آپ میں سے کوئی اپنے بیٹے کو میرے بیٹے کی جگہ میرے کاندھے پر بٹھائے گا؟
میں اسے بحفاظت دوسری طرف لے جاؤں گا‘‘ اسکی بات سن کر سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو کچھ کو سکتہ سا ہو گیا۔ سب خاموش ہو گئے یقینا یہ لوگ یقین کی دولت سے مالا مال نہ تھے ایک بار کامیاب تجربے کے باوجود لوگ تذبذب کا شکار تھے انہیں یقین نہ تھا یقینا یقین کامل والوںکا بیڑا پار ہوتاہے۔ ایسا ہی یقین لیبیا سے تعلق رکھنے والے عامر کو تھا اللہ پاک کو اسکی کون سی ادا پیاری لگی کہ جہاز کو واپس لوٹ کر آنا پڑا اور اب ان لوگوںکو کیا کہیے جو بڑی شدو مد سے انکاری ہیں کہ اب معجزوں کا زمانہ اب نہیں رہا یقینامعجزے آج بھی ہوتے ہیں پتہ نہیں اللہ تعالیٰ کو کونسی ادا پسند آگئی زندہ معجزہ یہ ہے کہ لیبیا سے تعلق رکھنے والے’’عامر‘‘ نامی شخص اس سال حج کی نیت سے عازم سفر ہوا توالقذ افی ایئرپورٹ پر سیکورٹی کلیئرنس ہونے کے سبب نہیں اسے جانے نہ دیا گیا
اور جہاز عامر کے بغیر ہی پرواز کر گیا لیکن کچھ فنی خرابی کے سبب کچھ ہی دیر میں جہاز کو واپس اسی ایئرپورٹ پہ لینڈنگ کرنا پڑی تو ایک بار پھر عامر نے کوشش کی کہ وہ بھی حج بیت اللہ کے لیے جہاز میں سوار ہو مگر پائلٹ نے جہاز کے دروازے کھولنے سے انکار کر دیا اور ٹیکنیکل کلیرنس کے بعد جہاز ایک بار پھر پرواز کر گیا لیکن ایک بار پھر فنی خرابی کے سبب واپس لینڈنگ کرنا پڑی عامر نے اس بار پھر سفر کی کوشش کی مگر پھر انکار ہوا اور جہاز پرواز کر گیا لیکن تیسری بار پھر فنی خرابی کے باعث جہاز کو واپس لوٹنا پڑا اس بار پائلٹ نے کہا کہ جب تک’’عامر‘‘ جہاز میں سوار نہیں ہوتا وہ جہاز نہیں اڑائیں گے
اس بار عامر کو سیکورٹی کلیئرنس کے بعد جہاز کے مسافروں میں شامل کیا گیا اور جہاز بخیر وعافیت سعودیہ کے ائیرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اس مرتبہ سب کے حج قبول ہونے کا یقین ہے اس لئے اللہ کے حضور عالم ِ اسلام کی ترقی و خوشحالی سربلندی کے لئے گڑگڑا کر دعا کرنی چاہیے فلسطین، مقبوضہ کشمیر اور مظالم کے شکارتمام مسلمانوںکے لئے دعا کریں اور اللہ تعالیٰ کے خاص مہمان لیبیا کے عامر کو ساتھ لے کر اپنی دعائوںمیں شریک کریں کیونکہ کچھ لوگ زمین پہ غیر معروف ہیں لیکن عرش پہ معروف و محبوب ہیں یقین کی دولت ہی سے ایمان کی تکمیل ممکن ہے غورو فکرکی بات یہ ہے
کہ لیبیا کا ایک حاجی رہ گیا تو جہاز نے جانے سے انکار کر دیا جبکہ پاکستان کے 67000 حاجی رہ گئے اور کوئی معجزہ رونما نہ ہوا یہ سوچنے کی بات ہے۔ ہم سب کے لئے غور فکر کے دریچے کھولنے کے لئے امام حرم مکی شیخ یاسر الدوسری کا کہنا ہے ’’جو آدمی لیبیا کے اس نیک و صالح عامر کو دیکھے، اُسے چاہیے کہ اُس سے اپنے لئے دعا کروائے، کیونکہ وہ وہی انسان ہے جو پورے یقین سے کہتا رہا: ‘یہ جہاز میرے بغیر نہیں اُڑ سکتا!اور واقعی… اللہ نے اُس کی زبان پر یقین کی مہر ثابت کر دی! ایسا یقین، ایسا توکل… دلوں کو ہلا دینے والا ہے۔ اللہ ہمیں بھی ایسا اخلاص، ایسا یقین، ایسی قربت عطا فرمائے‘‘۔