شر پسندوں پر گہری نظر رکھنا ہو گی !
دنیا کے کسی ملک کیلئے نہایت ہی کڑا وقت ہوتا ہے کہ اسے اپنے ہمسایہ ملک سے سلامتی کا خطرہ لاحق ہو جائے اور فریقِ ثانی معاملات کو سدھارنے کے بجائے مزید بگاڑنے پر تلا ہو تو معاملہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے ،پا کستا ن بڑے ہی صبر وتحمل کاظاہرہ کرتا چلا آرہا ہے ، لیکن طالبان حکو مت کی جانب سے بے اعتنائی حد سے بڑھی تو کاروائی کر نا پڑی ہے،پاکستان فوج کے ذمہ دارانہ جواب کے بعد کسی حدتک سلسلہ تھم گیا اور معاملہ مزید بگاڑ کا شکار نہیں ہورہا ہے اور وزارتِ اطلاعات و نشریات کی جانب سے بھی واضح کردیاگیا ہے کہ پاکستان جنگ بندی پر قائم اور استنبول مذاکرات کے حوالے سے پُرعزم ہے،جبکہ کابل حکو مت کا منفی رویہ پا کستان کو افغانستان کے اندر سخت کاروائی کرنے پر مجبور کررہا ہے۔
یہ پاکستان کا تحمل ہے کہ افغانستان کی جانب سے درپیش سکیورٹی خطرات کے باوجود وہ کشیدگی بڑھانے کے بجائے افہام و تفہیم سے مسئلے کے حل کا خواہاں ہے، اگر افغانستان 2020ء کے دوحہ معاہدے پر عمل کرتے ہوئے اپنی سرزمین کو دہشتگردی میں استعمال ہونے سے روک لیتا اور اسے دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دیتا تو ان مذاکرات کی نوبت ہی نہ آتی، مگر افغانستان شروع سے ہی اپنی عالمی اور علاقائی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتا چلا آرہا ہے ،اس کے باعث ہی بات دونوں ممالک میں جھڑپوں تک جا پہنچی ہے، دوست ممالک کی فوری مداخلت نے سیز فائر تو کرادیا
اور تصفیہ طلب معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا عزم کیا گیا، لیکن پے در پے مذاکرات کے باوجود افغان حکومت معاملا ت سلجھانے کے بجائے مذید اُلجھائے چلی جارہی ہے۔
اس خطے میں قیام امن کیلئے جہاں پا کستان کوشاں ہے ،وہیں اسلامی دوست ممالک بھی اپنے تائیں پوری کوشش کررہے ہیں کہ معاملات کومذاکرات کے ہی میز پر حل کیا جائے ،مگر بھا رت کے ہاتھ میں ہلتی افغان طالبان کی ڈوریاںمذاکرات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے نہیں دیے رہی ہیں، اس لیے ہی قطر مذاکرات ناکام رہے،
دوسرے استنبول مذاکرات میں فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل اور امن کے قیام کو یقینی بنانے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے فریق پر جرمانہ عائد کرنے کیلئے ایک نگرانی اور تصدیقی نظام کے قیام پر اتفاق کیا، علاوہ ازیں مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا، اب تیسرے جاری مذاکراتی دور میں علاقائی اور سرحدی امن و امان کے حوالے سے مزید پیشرفت کی امیدکی جارہی ہے۔
ہر مذاکراتی دور میںریاستِ پاکستان کا مؤقف بڑا ہی واضح رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہیے‘ اس کیلئے اسلام آباد کابل انتظامیہ سے ٹھوس اور قابلِ تصدیق ضمانتیں بھی چاہتا ہے،گزشتہ مذاکراتی دور میں معاملات کافی حد تک نمٹ چکے تھے، مگر بعد ازاں افغان وفد طے کردہ نکات سے پیچھے ہٹ گیا،اس بار بھی ایسی ہی روش دیکھنے میں آ رہی ہے
کہ جیسے ہی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تو سرحدی چھیڑ خانی بھی زور پکڑنے لگی ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ سب کچھ کسی طے شدہ ایجنڈے کا حصہ ہے،اس پر ہی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے خبردار کیا ہے کہ اگر افغانستان کی جانب سے حملے جاری رہے تو پاکستان افغانستان کے اندر جاکر بھی کارروائی کر سکتا ہے۔
وزیر دفاع نے اگر افغانستان کے اندر کارروائی کی بات کی ہے تو یہ مذاکرات کی ناکامی اور دہشتگردی کی صورت میں ہے‘جو کہ پاکستان کی سلامتی کا ناگزیر تقاضا بھی ہے، لیکن اس وقت کا اہم تقاضا ہے کہ دونوں ممالک کے رہنما ماضی کی تلخیوں کو پسِ پشت ڈال کر باہمی اعتماد کی بنیاد پر نئے باب کا آغاز کریں،دوحہ میں ہونے والی جنگ بندی امید کی کرن ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر نیتیں درست ہوں تو پیچیدہ مسائل بھی بات چیت کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں، امید کی جارہی تھی
کہ استنبول میں ہونے والی نشست معاہدے کو مضبوط تر بنائے گی، تاکہ پاکستان اور افغانستان نہ صرف اپنے لیے، بلکہ پورے خطے کیلئے امن، ترقی اور استحکام کی مثال قائم کر سکیں،لیکن ایسا نہ ہو سکا اور استنبول مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے ہیں ،ایک بار پھر شر پسند قوتیں کا میاب ہو گئیں، ان شر پسند عناصر اور سازشی قوتوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی کہ جنہیں مذاکرات کی کامیابی قبول نہیں ،اُن کا مفاد دونوں ملکوں کی باہمی لڑائی ہے ،اللہ تعالیٰ دونوں برادر ممالک کے درمیان اخلاص، اعتماد اور خیر خواہی کو پروان چڑھائے اور دونوں ملکوں کو تعمیر، ترقی اور خوشحالی کے سفر میں ایک دوسرے کا دست و بازو بنائے، آمین۔

