ہزاروں سالہ مختلف مذہبی آسمانی تعلیمات، مکرر دہرائے جاتے، ہمیں نار جہنم سے بچنے مددگار بنتی رہتی ہیں
نقاش نائطی
۔ +966562677707
ہمیں جنگلی جانوروں کے شکار کا شوق تھا چالیس سال پہلے عفوان شباب دور میں، ہم کچھ لوگ اپنے اسکوٹر پر شکار کے لئے گئے ہوئے تھے۔ یہاں شکار کے لئے جاتے ہوئے جنگل میں، سکونت پذیر پہلے سے طہ کسی قبائلی کے گھر جانا ہوتا تھا۔ ساتھ لیجایا توشہ کھانے کے بعد، اس قبائلی رہبر کے ہمراہ جنگل میں پیدل گھنٹوں ہاتھ میں بندوق لئے سر پر بندھے ھیڈ ٹارچ کے ساتھ گھومتے گھومتے کسی ہرن بارہ سنگھے یا نیل گائے یا بھینسے کو دیکھتے ہی اسے مارنا ہوتا تھا۔
عجب اتفاق، ناشتے سے فراغت کے بعد، ہمیں قئے ہوئے، ہماری طبیعت بگڑ چکی تھی، ساتھیوں نے مشورہ دیا
کہ ہمیں اس قبائلی رہبر کے گھر برآمدے میں آرام کرنا چاہئیے۔ ایک اور بزرگ ساتھی نے کہا کہ وہ ہماری دیکھ ریکھ کے لئے رک جاتے ہیں۔ اس طرح ہم دو کو چھوڑ باقی دو ساتھی اس قبائلی رہبر کے ساتھ شکار کے لئے جنگل جاچکے تھے۔انکے جانے کے بعد، اس رہبر کی جوان سال ھندو مرہٹن بیوی جو تھوڑی دیر پہلے تک ہمارے کھانے پینے چاء وغیرہ کا اہتمام کرتے، سامنے ہی رہتی تھے۔ لیکن جیسے ہی ہمارے دوساتھیوں کے ہمراہ اس کا شوہر شکار پر چلا گیا، اس نے اس جھونپڑی کے اندرونی حصے میں گھس اندر سے دروازے کی چٹخنی چڑھالی تھی۔ ہم دونوں دالان میں فرش پر بھاری کمبل بچھائے سو رہے تھے۔ ہم کم وبیش نیند کی آغوش میں بے سدھ ہورہے تھے۔ کہ اچانک اس ساتھی نے دھیمے لہجے میں ہمارے قریب آکر پوچھا کیا نیند لگ گئی؟ ہم غنودگی کے مارے جاگتے ہوئے
بھی بات کرنے کے موڈ میں نہ تھے۔ بات میں مشغول رہنے سے ہماری نیند نہ خراب ہوجائے، اس لئے ہم نے خود گہری نیند میں سوئے ہوئے ظاہر کرنے کے لئے، انکی کسی بات کا جواب نہ دیا۔ کچھ لحظوں تک ہمیں ٹٹولنے کے بعد وہ بزرگ گویا ہمیں نیند میں مست محسوس کئے ہم سے بے فکر ہوچکے تھے۔ کچھ توقف کے بعد انہوں نےاندراس ھندوعورت کو پیار سے آواز دی۔ انکے ایک دو مرتبہ آواز دینے پر اندر کرخت آواز میں وہ جو گویا ہوئیں تو ہم مستعجب ہوئے دیکھتے رہ گئے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے، اپنےشوہر نامدار کےسامنے بڑی ہی سریلی آواز میں، ہم سبھی مہمانوں سے مخاطب ہوئے ہماری خدمت جس تندہی سے کررہی تھی۔اس کی کرخت آواز “کیا ہے؟” نے ہمیں چونکا دیا۔ ہمارے ساتھی نے اس سے پینے کا پانی طلب کیا تو اسکے جواب میں اسی کرخت لہجے میں ٹکا سا جواب دیا
“اس کنارے میز پر گڑھے میں پانی ہے پی لو” ان صاحب نے اسے دروازہ کھولنے کو بارہا کہا لیکن اس کا لہجہ کرخت سے کرخت اور لہجہ تیز تر ہورہا تھا۔”کیوں میں باہر آؤں؟ سوجاؤ ! ورنہ سوامی (شوہر) کے آنے کے بعد اس سے کہدونگی کہ وہ تمہیں دوبارہ یہاں آنے کی اجازت نہ دے” یہ سن کر وہ صاحب پھر میرے قریب آکر میں سو رہاہوں یا جاگ ، بات کرنے کی کوشش کئے ہمیں خوب ٹٹولا ۔ گو ہماری آنکھوں سے نیند کوسوں دور بھاگ چکی تھی لیکن ہم، بے سدھ ایسے ہی پڑے رہے جیسے ہم گہری نیند سو رہے ہیں۔
ان ایام زمانہ کلیہ، اصلاحی عالم پروفیسر رشید کوثر فاروقی علیہ الرحمہ کی تفسیر قرآن مجلسوں میں بیٹھے ہوئے، سورہ احزاب کی آیات کے مفہوم سے ہم آگاہ تھے، اللہ رب العزت مسلم نساء سے مخاطب ہوئے کہتا ہے کہ “اگر تم کسی اجنبی سے بات کرو تو، نرم لہجے میں بات مت کیا کرو، تاکہ وہ شخص جس کے دل میں (شہوانی) بیماری ہے، کوئی برا خیال، اپنے دل میں نہ لائے، دستور کے مطابق اس سے بات کرو”
وہ قبائلی نساء بالکلیہ ایک دو کلاس پڑھی ہوئی بھی نہ تھی اور نہ ہی شہری آداب و حسن سلوک سے آراستہ و پیوستہ تھی۔ لیکن قرآنی احکام کو اسکے بڑوں نے، ہندستانی قدیم آسمانی تہذیبی باتوں کے طور، اس میں ودیعت گویا کیا ہوا تھا۔ اس واقعہ کو ہم نے بیسیوں سال پہلے اپنی نگارشات کا حصہ بنایا تھا، لیکن آج کی اس کلپ نے چالیس پینتالیس سال قبل والے اس واقعہ کو، ہمارے ذہن کے دریچوں سے باہر اسے نکال، موبائل کی پیڈ پر تھرکتی ہماری شریر انگلیوں نے، اسے دوبارہ آگہی مشن کے حصہ کے طور اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنے کی جسارت ہمیں بخشی یے۔کاش کہ صالح مسلم معاشرے کی مسلم نساء بھی اپنے خالق و مالک کے حکم مطابق، نرم دلرباءلہجہ ماورائیت کچھ کرخت ہی لہجے، اجنبیوں سے ہم کلام ہوتے، واقعتا” صالح معاشرے کی تعمیر میں، ممد و مددگار ثابت ہوتیں وما التوفیق الا باللہ۔

