قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کرنے کی سزا بھی، عبرت ناک ہوا کرتی ہے" 601

اعظم خان کو یوگی کے رحم وکرم پر چھوڑنا ہم بھارتیہ مسلمانوں کے بے حسی ہے

اعظم خان کو یوگی کے رحم وکرم پر چھوڑنا ہم بھارتیہ مسلمانوں کے بے حسی ہے

نقاش نائطی
۔ +96650496485

سمیع اللہ خان کے مضمون “یہ صرف اعظم خان کی تصویر نہیں ہے یہ ہم مسلمانوں کی دردناک حقیقت ہے” پر تبصراتی تحریر

انسان کبھی ناکام نہیں ہوا کرتا ہاں ہم بھارتیہ مسلمان ہوسکتا ہےجوھر یونیورسٹی قائم کرنے والے اپنے ہیرو کو بصحت و سلامت آزاد کروانے میں ناکام ہوگئے ہوں یا ناکامی قبول کرلی ہو۔ مرنا تو ہر کسی کو ایک نہ ایک دن ہے اعظم خان نے اپنی اولاد کے لئے شراب کی بڑی فیکٹری لگائی ہوتی تو کوئی انہیں تنگ نہ کرتا انہوں نے ہم مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے محمد علی جوہر یونیورسٹی قائم کی، یہی انکا کا قصور تھا کہ انہوں

نے قوم مسلم کو تعلیم یافتہ کرنے کی کوشش کی۔ مرنے کے بعد تو ہم مسلمان، ہر کسی کی تعریف و قصیدے لکھنے میں بڑے ماہر ہیں لیکن جیتے جی کبھی ہم نے اپنے لیڈروں کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ ہوسکتا ہے اللہ نہ کرے، یوگی کے زیر حراست رہتے اعظم خان کے انتقال کی خبر آجاتی ہے تو لوگ ہوسکتا ہے ان کی تعریف کے قصیدے گاتے انہیں سر سید ثانی کے عہدے پر براجمان کردیں لیکن ان کی زندگی میں ہم انہیں ساتھ دینے سے کتراتے پائے جاتے ہیں

اگر یوپی کے مسلمان شروعاتی دنوں میں انہیں جیل اور یوگی کے نرغے سے آزاد کرانے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آتے اور پولیس لاٹھی چارج و فائرنگ میں دو چار شہید بھی ہوجاتے تو، یوگی راج میں جو اتنے سارے بےقصور مارے گئے ہیں وہ تو بچ جاتے اور آئیندہ کسی کو مسلم لیڈران پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ ہوتی۔ کانگرئس حکومت مہاراشترا کے کاغذی شیر کو، باوجود گرفتاری وارنت کے اسی لئے گرفتار کرنے کی ہمت جٹا نہیں پائی تھی۔ لیکن یوپی کے مسلمانوں سے کسی قسم کے احتجاج کی فکر نہ تھی اسی لئے آج اعظم خان یوگی جیل میں تل تل مررہے ہیں۔ اللہ ہی انکی حفاظت کرے۔
https://www.facebook.com/100012749744841/posts/1258266301275016/

*یہ صرف اعظم خان کی تصویر نہیں ہے یہ ہم مسلمانوں کی دردناک حقیقت ہے*

✍: سمیع اللّٰہ خان

جیل جانے سے پہلے تو اعظم خان ایسے نہیں تھے، ان کا بولنا طاقتور ہوتا تھا جیل جانے سے پہلے کی ان کی تقاریر، پارلیمنٹ سے لے کر رامپور میڈیا خطاب تک دیکھ لیجیے، کیا گھن گرج تھی ان کی آواز میں، سَنگھ کو ایسی مسلمان آواز سے فطری الرجی تھی کیونکہ جب وہ بولتے تھے تو لگتا تھا کوئی باوقار انسان بول رہاہے، وہ چلنے پھرنے میں بھی صحتمند اور توانا تھے، پھر جیل جانے کےبعد سے ان کی صحت بگڑتے بگڑتے اس حال تک جاپہنچی !

مجھے بالکل یقین نہیں کہ یہ سب قدرتی امر ہے، اترپردیش سے باہر نکال کر ان کے جسم کی مکمل باریکی سے جانچ ہونی چاہیے، انہیں کیا کھلایا جاتا رہا، کھانے پینے سے لے کر دوائیوں تک کی، بالکل شفاف ہاتھوں میں یہ معائنہ ہونا چاہیے

موجودہ یوگی سرکار کے نشانے پر وہ براہ راست ہیں، وزیراعلیٰ یوگی کے انتقامی مزاج اور دشمنانہ سیاست سے کون ناواقف ہے؟ آر ایس ایس اور بھاجپا کو مسلمانوں کے درمیان کسی بھی طاقتور آواز سے کس درجہ دشمنی ہے اور انہیں ختم کرنے کے لیے وہ کس حد تک گر سکتےہیں کیا یہ اب بھی ڈھکا چھپا ہے؟ فرزندِ بہار شیرِ سیوان سید شہاب الدین کےساتھ کیا ہوا ؟ وزیراعلیٰ یوگی نے اپنے مکمل سامراج میں اپنے سیاسی دشمنوں پر انتہائی سفاکیت کےساتھ بلڈوز چلوانے سے لے کر انکاؤنٹرس کروانے تک کیسی بےشرمی کا مظاہرہ کیا ہے…

کیا یہ مخفی ہے؟ توپھر صحیح سالم اور صحتمندانہ جیل میں پہنچنے والے اعظم خان جیسے قدآور مسلم لیڈر کے جیل پہنچنے کےبعد سے تشویشناک طبی صورتحال پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کیوں کر لیا جائے؟ ایک ایساآدمی جس نے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی کو کسی وقت ناکوں چنے چبوائے تھے اس کے سلسلے میں یوگی کی ہی ریاستی مشنری پر اعتماد کرنے میں بھلا کوئی معقولیت بھی ہے؟ آر ایس ایس وادی برہمن حکمرانوں کی طرف سے بھی اعظم خان کے خلاف ہری جھنڈی یقینًا ہے کیونکہ اعظم خان نے سرسید جیسا کوئی کام کرنے کی کوشش کی تھی انہوں نے محمد علی جوہر یونیورسٹی کی شروعات کی تھی، ایسے میں اعظم خان کو ان لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑنا کہاں کی دانشمندی ہے؟

میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں، اور ملت کے لیڈروں کو متوجہ کرانے کی کوشش بھی کی ہے، اور ابھی بھی دوہراتا ہوں، کہ میں ایک منٹ کے لیے بھی یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ، اعظم خان محفوظ ہاتھوں میں ہیں، اور ان کی مسلسل بگڑتی ہوئی طبیعت صرف قدرتی امر ہے، اگر آج کی ہندوستانی سیاست میں ايسے بھروسے کیے جانے لگے تب ہندوتوا کے حکمرانوں کو ” ننھی گائے ” بھی مان لینے میں کیا حرج ہے
اگر آپ آج، اعظم خان کو اس حالت میں کسی بھی فاسد وجہ کر چھوڑنے پر راضی ہیں تو آپ اپنے ہاتھوں سے اپنی تاریکی لکھ رہے ہیں، سیکولر اور لبرل دوست نما بہروپیوں کا انتظار بیکار ہے، حقیقت یہ ہیکہ وہ کسی بھی طاقتور مسلمان کے خاتمے پر اندر ہی اندر سب سے زیادہ خوش ہوتےہیں ۔
اعظم خان ہمارا ہے، ہماری ملت کا حصہ ہے، اور ملت کے حوالے سے ہی جانا پہچانا جاتاہے، اس لیے وہ ہماری ذمہ داری میں سب سے پہلے ہے، المناک صورتحال ہےکہ سیاسی مذہبی و ملی لیڈرشپ نے اعظم خان کےساتھ انصاف نہیں کیا ہے۔
قبل ازوقت ہوش کے ناخن لیجیے، اعظم خان کو اترپردیش سے دور لے جاکران کا علاج محفوظ ہاتھوں میں کروایا جانا چاہیے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں